بلی فطری طور پرآزاد اور خود پسند حیوان ہے۔ اسے قید میں رہنا ہرگزگوارا نہیں۔ انسان سے میل جول کے باوجود وہ پابند نہیں رہنا چاہتی۔ مشہور ہے کہ بلی جب تک دس گھر نہ پھر لے اسے چین نہیںآتا۔ قدرت نے اس مختصر سے حیوان کو سوچنے سمجھنے کی حیرت انگیز صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں اور نہایت بدترین حالات میں بھی بلی میں زندہ رہنے کی بے مثال اور معجزہ نما قوت موجود ہے۔ وہ مسلسل فاقوں کو آسانی سے برداشت کر سکتی ہے۔ سخت سے سخت چوٹ کو سہہ لیتی ہے۔ اسے خواہ کتنی ہی بلندی سے پھینک دیا جائے، پھر بھی بچ جاتی ہے۔ آگ کی شدت اور پانی کے طوفانوں میں سے بخیریت گزر سکتی ہے۔ قدیم تصور کے مطابق بلی کو خدا نے نو زندگیاں دے کر اس زمین پر بھیجا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ ماہرین علم حیوانیات نے جب بلی کی جسمانی اور ذہنی قوت برداشت کا امتحان لیا تو انہیں بھی تسلیم کرنا پڑا کہ یہ جانور مافوق الفطرت قوتوں کا مالک ہے۔ بلی کڑ ی سے کڑی سزا ہنس کھیل کر برداشت کر جاتی ہے۔
جسمانی قوت کے ساتھ ساتھ اس حیوان کی ذہنی قوت بہت زیادہ عجیب اور پراسرار ہے۔ حال ہی میں مشہور جرمن ماہر نفسیات ڈاکٹر ہانز خاں ہنٹنگ نے بلی کی ذہنی کیفیت کوجانچنے کیلئے بعض دلچسپ تجربات کیے ہیں اور اس نے ایک حیران کن انکشاف کیا ہے کہ بلیاں آنے والے حادثات یاواقعات سے پہلے ہی آگاہ ہو جاتی ہے اور ایسے اشارے کرتی ہیں جن سے صاف پتہ چلتا ہے کہ عنقریب کوئی حادثہ پیش آنے والا ہے۔ چنانچہ ایسے ممالک میں جہاں آئے دن زلزلے آتے رہتے ہیں، بلیاں زلزلہ آنے سے پہلے عجیب اضطراری حرکات کرتی دیکھی گئی ہیں اوروہاں کے باشندے فوراً سمجھ جاتے ہیں کہ ایک یا دو گھنٹے تک زلزلہ آنے والا ہے۔ چنانچہ وہ بچاﺅ کی تدابیر پہلے سے اختیار کر لیتے ہیں۔ گویا ان بلیوں سے ”زلزلہ پیمائی“ کا کام بخوبی لیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ہانز لکھتے ہیں۔
”زلزلہ آنے سے تھوڑا عرصہ پہلے بلیوں کے رونگٹے اور کان کھڑے ہوجاتے ہیں اور پھر ان کا جسم تھر تھر کانپنے لگتاہے اور آنکھوں میں بلا کی چمک پیدا ہو جاتی ہے اور وہ مسلسل میاﺅں میاﺅں کرنے لگتی ہیں۔“ ڈاکٹر کی رائے میں بلیاں ازحد زودحس ہوتی ہیں۔ وہ زمین کی نہایت معمولی سی تھرتھراہٹ کو بھی محسوس کر لیتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بلیوں کی ایک حیران کن صفت یہ بھی ہے کہ اگر انہیں گھر سے سینکڑوں میل دور کسی انجان علاقے میں چھوڑ دیا جائے تب بھی گھر واپس پہنچ جاتی ہیں۔ رابرٹ اپنی بلی کی شرارتوں سے جب بہت تنگ آیا تو اس نے بلی کو بوری میں بند کیا۔ اپنی موٹر کی ڈکی میں بوری بند کی اور گھر سے چار میل دور دریا کے کنارے بوری پھینک کر واپس چلا آیا۔ راستے میں اس کا ایک دوست مل گیا اور وہ دونوں ایک گھنٹے تک ہوٹل میں بیٹھے گپ شپ ہانکتے رہے۔ شام کو جب رابرٹ گھر واپس پہنچا تو اس نے اپنے کمر ے میں بلی کو موجود پایا جو آتش دان کے قریب بڑے اطمینان سے آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔رابرٹ نے صبح کا انتظار نہ کیا،بلی کو پھر پکڑا، ایک اور بوری میں بند کیا اور موٹر میں رکھ کر نہایت پیچیدہ راستوں سے چلتا ہوا کوئی ڈیڑھ سو میل دور اپنے ایک دوست کے گھر پہنچا اور اس سے کہا کہ اس بلی کو کسی اور جگہ پہنچانے کا انتظام کر دے۔رات بھر رابرٹ وہیں رہا۔ رابرٹ کا دوست جان بلی کو لے کر ریلوے اسٹیشن پہنچا۔ گارڈ اس کا دوست تھا بلی کی بوری اس کے سپرد کی اور کہا کہ اسے راستے میں جو جنگل پڑتا ہے‘ وہاں چھوڑ دینا۔ رابرٹ پھر اطمینان سے اپنے گھر واپس چلا گیا۔ لیکن ابھی ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ وہی بلی پھر آگئی اور اس کے پیروں میں لوٹنے لگی۔ معلوم ہوا کہ بلی نے پانچ سومیل کا سفرایک ہفتے میں طے کیا اور راستے کے کئی دریاﺅں، جنگلوں، آبادیوں اور شہروں کو عبور کرکے آخر کار اپنے گھر واپس پہنچ گئی۔ یہ معمہ ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے کہ وہ کون سی غیبی قوت بلی میں پویشدہ ہے جو اسے اپنے گھر کا راستہ بتاتی ہے۔”بلیاں دوسرے جانوروں کے برعکس ایک خاص حس کی مالک ہیں۔ اور یہی وہ پراسرار حس ہے جو انہیں اپنے صحیح ٹھکانے کا پتہ دیتی ہے۔ یہ حس اس وقت کام کرتی ہے جب بلی کسی نامعلوم مقام پر چھوڑ دی جائے۔ اس کی مثال قطب نما کی سوئی کی سی ہے جسے جتنا چاہیے گھما دیجئے اس کا رخ ہمیشہ شمال کی طرف رہتا ہے۔ یہی ذہنی قطب نما بلی کوبھی فطرت نے بخش دیا ہے۔“
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں